موسم بیت جاتے ہیں
پھر ان کی یاد کی ناگن
کچوکے لیتی رہتی ہے
نگاہیں گزرے پل بیتی ہوئی ان تلخ یادوں کا
تماشہ دیکھ لیتی ہیں
Ù…Ø+بت ہو عداوت ہو رفاقت ہو یا نفرت ہو
یا عاشق Ú©Û’ لئے Ù…Ø+بوب Ú©Û’ ہاتھوں کا Ú©Ù†Ú¯Ù† ہو
Ø+قیقت Ú†Ú¾Ù¾ تو جاتی ہے
نشاں Ù…Ø+فوظ رہتے ہیں
مگر ہم خوش گماں اتنے
نیا جب سال آتا ہے
ہم اپنے آپ سے دو چار وعدے کر ہی لیتے ہیں
کہ اب کچھ ایسا کرنا کہ اب کچھ ویسا کرنا ہے
کہ جیسے وقت چلتا ہو ہمارے ہی اشاروں پر
انہی سوچوں میں غلطاں روز و شب اپنےگزرتے ہیں
کبھی سورج نکلتا ہے
کبھی شب ڈھلنے لگتی ہے
مگر پھر سال کے آخر
Ù…Ø+اسب بن Ú©Û’ جب ہم اپنا ہی اØ+تساب کرتے ہیں
تو یہ معلوم ہوتا ہے
کہ جس کے پیچھے بھاگ کر ہم نے گزارا سال
وہ سایہ تھا سراب عشق تھانہ تھی کوئی Ø+قیقی Ø´Û’
یقیں کی آنکھ کھلتی ہے
ضمیر آواز دیتا ہے
اور پھر
وہی وعدے وہی دعوے
ہمارا منہ چڑاتے ہیں
اپنے آپ ہی سے ہم اپنا
منہ چھپاتے ہیں
دسمبر کی شبوں میں جاگ کر ماتم مناتے ہیں
اسی آہ و فغاں میں کتنے موسم بیت جاتے ہیں
مگر ہم خوش گماں اتنے
نیا جب سال آتا ہے